اکسر ہم جزبات -و-جنون کی لہروں میں بہہ جاتے ہیں
کچھ بے معنی رسم-و-روایت میں بندھ کے رہ جاتے ہیں
کیوں لوگوں کی باتیں سن کے دل ڈھیری ہو جاتا ہے
کیوں سپنوں کے مھل ہمارے اک پل میں ڈھہ جاتے ہیں
جنگل میں کھلھانوں میں اب فرق نہیں دکھتا کوئی
انسانوں کے ہاتھوں سے ہی اب سارے دہ جاتے ہیں
کہتے ہیں پیغام امن کا لے کے جاینگے تو پھر
کیوں ہاتھوں میں خنزر اور تلواریں گیہ گیہ جاتے ہیں
جیون میں کچھ دکھ کی گھڑیاں بھی اکسر آ جاتی ہیں
کوی رو کر کاٹیں کوی ہنس ہنس کے سہ جاتے ہیں
جن بچوں کے دل میں ہم بچپن مے ڈر بھر دیتے ہیں
وو بچے پھر جیوں بھر کچھ سہمے سے رہ جاتے ہیں
کہنے والے جو من آے بن سوچے کہ جاتے ہیں
دھنیہ مگر ہیں 'راجن جو خاموشی سے سہ جاتے ہیں
" راجن سچدیو "
No comments:
Post a Comment