دل ہے کہ پھر بھی گلا کرتا رہا
بروا میرے آنگن کا مرجھا گیا
صَحْرا میں ہر پھول مگر کھلتا رہا
باطِن و ظاہِر نہ یکساں ہو سکے
کشمکش کا سلسلہ چلتا رہا
آوروں کو دیتے رہے نصیحتیں
آشیاں اپنا مگر جلتا رہا
ماضی کا رہتا نہیں اس کو ملال
وقت کے سانچے میں جو ڈھلتا رہا
پا سکا نہ وہ کبھی 'راجن سکوں
جو حسد کی آگ میں جلتا رہا
||راجن سچدیو ||
No comments:
Post a Comment