Friday, April 5, 2024

اپنے بھی اب کتنے بیگانے سے لگتے ہیں


بدلے بدلے چہرے انجانے سے لگتے ہیں 
اپنے بھی اب کتنے بیگانے سے لگتے ہیں 

وو ہی منظر دیوار و در وو ہی کاشانے 
یہ رستے تو اپنے پہچانے سے لگتے ہیں 


رہتی تھی ہر وقت جہاں رونق دیوالی سی 
اب وو محل چبارے ویرانے سے لگتے ہیں 

دل میں جانے کتنے دکھ چھپاہے بیٹھے ہیں 
چہرے سے جو غم سے انجانے سے لگتے ہیں 
 
کھل جاتا ہے بھید شمع کے جلتے ہی انکا 
شقل-و-صورت میں جو پروانے سے لگتے ہیں 

پیار کیا پھر شادی اور پھر جیوں بھر آنند 
یہ قصے تو فلمی افسانے سے لگتے ہیں 

سنتے تھے بچپن مے جس کی لاٹھی اسکی بھینس 
اب یہ قصے جانے پہچانے سے لگتے ہیں

جانے کیا دیکھا رندوں نے ساقی میں راجن 
جسکو بھی دیکھو وو دیوانے سے لگتے ہیں
                " راجن سچدیو "

No comments:

Post a Comment

Reason for Suffering

We suffer because we think -  that things should be different than what they are. However, every time, everything may not happen the way we ...