بدلے بدلے چہرے انجانے سے لگتے ہیں
اپنے بھی اب کتنے بیگانے سے لگتے ہیں
وو ہی منظر دیوار و در وو ہی کاشانے
یہ رستے تو اپنے پہچانے سے لگتے ہیں
رہتی تھی ہر وقت جہاں رونق دیوالی سی
اب وو محل چبارے ویرانے سے لگتے ہیں
دل میں جانے کتنے دکھ چھپاہے بیٹھے ہیں
چہرے سے جو غم سے انجانے سے لگتے ہیں
کھل جاتا ہے بھید شمع کے جلتے ہی انکا
شقل-و-صورت میں جو پروانے سے لگتے ہیں
پیار کیا پھر شادی اور پھر جیوں بھر آنند
یہ قصے تو فلمی افسانے سے لگتے ہیں
سنتے تھے بچپن مے جس کی لاٹھی اسکی بھینس
اب یہ قصے جانے پہچانے سے لگتے ہیں
جانے کیا دیکھا رندوں نے ساقی میں راجن
جسکو بھی دیکھو وو دیوانے سے لگتے ہیں
" راجن سچدیو "
No comments:
Post a Comment